تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری
قسط5
_________
" بہتی ہواؤں میں بھیگے بھیگے الفاظ
کھلتے گلاب میں پانی کا ایک قطرہ
پلکوں کی باڑ سے بہتا آنسوؤں کا سیلاب
زخموں کی زنجیروں میں قید خواب
فنا کر دیتے ہیں دل کو،،
وہ سب یونیورسٹی پہنچ گئے تھے ، سارہ اور جيرش دونوں ہی اندیٹریوم میں چلی گئی تھی جبکہ محسین ، شیان اور سمعان وہ تینوں سر ظفر کے پاس گئے تھے۔۔۔
"السلام وعلیکم سر !! اُن تینوں نے ایک ساتھ سلام کی ۔
"وعلیکم السلام ... سلام کا جواب دیتے سر ظفر اُن تینوں کو دیکھا۔ ۔
ایسے غور سے دیکھنے پر محسین گڑبڑایا تھا۔۔
"جناب محسین خان کو یونیورسٹی کا راستہ یاد ہیں سر ظفر نے محسین کی طرف غور سے دیکھتے حیرت سے اُس پر طنز کیا ۔۔۔
" و وہ سر ... و وہ بسس اس سے آگے کچھ بن ہی نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا جواب دیں ....
" بیٹا محسین کم از کم آنے سی پہلے سوچ تو لیتا .. وہ من ہی من بڑ بڑا کر رہ گیا تھا معصومیت چہرے پر سجھا کر وہ بولا تھا۔۔۔
" سر ر ... !!!
"وہ دراصل میری بہت طبیعت خراب تھی دیکھو نہ کیسے میرا چہرا زرد پڑا ہوا ہے میں کمزور بھی کتنا ہو گیا ہوں ، مجھ سے کچھ کھایا ہی نہیں جاتا کچھ کھاتا ہوں تو الٹیاں شروع ہو جاتی ہے ۔۔
اُسکی بات پر سمعان اور شایان دونوں ہے اسکو منہ کھولے دیکھ رہے تھے ، جبکہ شایان کو تو اپنی ہنسی روکنی ہی مشکل ہو رہی تھی۔۔۔
" سر چاہے آپ سمعان اور شایان سے بھی پوچھ لیں ۔ کیوں شایان میں ٹھیک ....... بول رہا ہوں نہ ؟ اُس نے اُسکی طرف گھورتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔
" ن نہیں نہیں وہ سر ہاں محسین بلکل ٹھیک بول رہا ہے.....
شایان نے گڑبڑا تے ہوئے محسین کی بات کی تائید کی تھی۔۔
" سر کیا بتاؤں اتنی بری حالت تھی محسین کی کہ بیچارے پر اٹھا بھی نہیں جاتا تھا دوسرا شخص ہی اسکو باتھرُوم تک لے کر جاتا تھا ...
"گھومنے تو جیسے بیچارے کو بہت دن ہو گئے تھے نہ ہوٹلوں میں جاتا تھا نہ کسی کے ساتھ گھومتا پھرتا تھا جبکہ باہر کی چیز کو تو ڈاکٹرز نے بلکل منا کیا ہوا ہے اسکو ....
اُس نے بھی اُسکی شان میں قصیدہ پڑھنے شروع کر دیے تھے اور محسین کی تو سینہ ہی چوڑا ہو گیا تھا یہ سن کر کہ اُسکا دوست اُسکا ساتھ دے رہا ہے۔۔۔
اب سمعان کو بہت مشکل لگ رہا تھا اپنی ہنسی کو روکنا تو وہ بات کو بدلتے ہوئے بولا ۔۔۔
" سر کچھ کام تھا۔۔۔ !!
" اچھا !! صحیح ہے بیٹا ... سر ظفر اب سمعان کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔۔
" جی بیٹا دراصل آج بہت امپورتینٹ گیسٹ آنے والے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اُنکی دیکھ بھال آپ کریں انکو کوئی بھی پریشانی نہ ہو ہر طرف سے اُنکا خیال رکھنا آپ تینوں کی ذمّےداری ہے ۔۔۔
سر ظفر اب تینوں کو سمجھا رہے تھیں اور ان تینوں نے بھی سعادت مندی سے ہامی بھر کر اندیٹرویوم آ گئے تھے ۔۔
______________________________________
ہر طرف رش ہی رش تھا گیسٹ آنے میں ابھی دس منٹ باقی تھے کھچا کھچ اندیٹرویوم بھرا پڑا تھا سٹوڈنٹ سے سب پارٹی انجوئے کر رہے تھے ۔۔۔
اسٹیج پر کوئی ڈانس کر رہا تھا کوئی پلے کر کے دکھا رہا تھا سب ہی فل انجوئے کر رہے تھے آخر کو بھئی آزادی کا دن تھا سٹوڈنٹ کے لیے پھر تو سب نے بزی ہو جانا تھا کوئی اپنے دوستوں سے مل کر رو رہا تھا تو کوئی ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہا تھا ۔۔
تبھی گیسٹ آنے کا شور اٹھا تھا یونیورسٹی کے سارے ٹیچر سٹوڈنٹ سب ہی نے پیچھے مڑ کے دکھا ۔۔
لال کارپیٹ پر چلتے تین کپل کوئی تیس پینتیس یا پھر ایک دو سال اور زیادہ عمر تک کے لڑکے تھے اور قریب پچیس چھبیس سال تک کی عمر کی وہ لڑکیاں تھی۔۔۔۔
" منہال سلمان شاہ نیلی آنکھوں والا انڈسٹریز کا بادشاہ بلیو جینز پر وائٹ شرٹ پہنے نیلے رنگ کا کوٹ پہن رکھا تھا بالوں کو جیلی سے سیٹ کیے ہوئے تھے جبکہ اُسکی مسکراتی نیلی آنکھیں ہائے آج بھی ایک دنیا اُس پر جان دیتی تھی لیکن وہ صرف مائشا پر جان وارتا تھا کوئی بھی اسکو یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ ہے ۔۔مائشا منہال شاہ سفید انار کلی فراک پہنے سر پر حجاب کے ہالے میں چھپا پُرنور چہرا میکپ سے بلکل پاک یہ چمکتا چہرا اتنا پیارا تھا کہ آج تک اتنا نور کسی کے بھی چہرے پر نہیں دیکھا تھا بلاشبہ یہ کپل دنیا کے خوبصورت کپل میں سے ایک تھا ۔۔ یہ تو سٹنڈنت نے طے کیا تھا بھئی یہ میں نہیں بول ری ھاھاھاھا 😂😂😂😂😂
"آپ آئے خوشیاں آئی
زندگی میں نئی اُمنگے لہرائی
کچھ سٹوڈنٹ نے شاعری پڑھنی شروع کی تھی۔ جبکہ سبھی ٹیچرز اُن کی طرف ہاتھ میں پھولوں کی مالا لیے بڑھی تھی۔۔
جرّار ہمدانی بزنس کی دنیا کا بادشاہ ہری آنکھوں والا مغرور شہزادہ بقول انوشے گرین ائیز گھوسٹ
بلیو جینز پر بلیک شرٹ اور پر لال بلیزر پہنے بالوں کو سیٹ کیے بھری ہوئی شو گوری رنگت پر خوب جچ رہا تھا انوشے جرّار ہمدانی لال جعلی کی ساڑھی پہنے اُس پر فل سلیو بلاؤج پہن رکھا تھا بالوں کو کھلا چھوڑ ہوا تھا کانوں میں بڑے بڑے گول آویز ڈارک لپسٹک میں اُسکی گرین ائیز بلکل کوئی پریوں کی دنیا کی شہزادی لگ رہی تھی بقول جرّار کے ہارٹ وچّ😂😂
" آئے ہو تو خوشیوں کو بانٹ دو ہر طرف
کچھ سیکھا دو ہمیں بھی خوشیوں کی امنگ
وہ لوگ وہیں پر ٹھہر گئے تھے جبکہ ٹیچرز نے انکو ایک ایک کر کے مالا پہنائی تھی ۔۔۔ اور اُنہونے مسکراتے ہوئے سب کا شکریہ ادا کیا تھا۔۔
Zm
یعنی ذیشان مجتبٰی اپنے وقت کہ انڈر ورلڈ گینگسٹر جس سے ساری دنیا تھر تھر کامپتی تھی لیکن اب وہ بھی بز نس کے دنیا کا بے نام بادشاہ تھا
بلیو جینز، ریڈ شرٹ جس میں اسکا کسرتی بدن نمایاں ہو رہا تھا.." گول چہرا ،کھڑا ناک ،کالی خوبصورت جھیل سے بھی گہری آنکھیں، انابی لب اور سنہری بال جن کو اس نے ترتیب سے سیٹ کیا ہوا تھا .."دودھ جیتنا گورا رنگ.." فرینچ دھاڑی میں وہ بلکل فرینچ ہی لگتا تھا عالیہ زیشان مجتبٰی بلیک رنگ کا فل گھیردار گاؤن جس کی فل سلیوز تھی حجاب کے ہالے میں سفید چمکتا چہرا کالی جھیل سی آنکھوں میں خوب بھر بھر کر کاجل کا پہرا ہونٹوں پر گلابی لپ اسٹک لگائے وہ بھی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
"مہکتے گلاب کی طرح پھیلا دو خوشیوں کی روشنی
آسمان چاند ستاروں کی طرح ہم لائے آپکے پیروں میں یہ گلاب کی پنکھڑی۔۔
سب ہی سٹوڈنٹ نے خوب جی بھر کر دیکھا سب ہی خوش تھے ان نیو گیسٹ کو دیکھ کر ۔۔
وہ لوگ چلتے ہوئے اسٹیج پر پہنچے ہر طرف سے ویلکم سونگ کی ہلکی ہلکی میوزک میں آواز آ رہی تھی ۔۔
پھر یونیورسٹی اسٹاف میں سے ایک ٹیچر نے مائک پکڑا تھا ۔۔
آہمم آهمم مم.... !!
اُنہونے مائک پر دو انگلیاں مار کر اسکو چیک کیا تھا اور پھر بولنا شروع کیا گیا تھا۔۔۔
"بجھتے ہوئے چراغ کو فروزاں کرے گے ہم
آپ سب آئے تو جشن چراغاں کرے گے ہم،،
Assalamu Alaikum .. First of all we thank you all from the bottom of our hearts for giving us your precious time. And welcome by our entire university staff and university students.
السلام وعلیکم.. سب سے پہلے ہم آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا۔ اور ہمارے پورے یونیورسٹی سٹاف اور یونیورسٹی کے طلباء کی طرف سے خوش آمدید ۔
"وعلیکم السلام ... !!
"نہیں اسکی کوئی ضرورت نہیں ہیں ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی کہ ہم سب آپ سب کی خوشی میں شامل ہوئے اللّٰہ سب کو خوشی دیکھنی نصیب فرمائے آمین ثم آمین ..
سب نے ایک آواز میں سلام لی تھی پھر منہال نے ہاتھ میں پکڑا مائک چہرے سے قریب کر کے کہا تھا ۔
جس کی اُن سبھی نے تائید کی تھی۔۔۔
"بسس کچھ باتیں جو ہم سب طلباء سے کہنا چاہتے ہیں اُسکے لیے بسس تھوڑا وقت لے گیں ۔۔
منہال نے اُن سب کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
"بلکل بلکل یہ تو ہماری خوش نصیبی ہوگی جو آپ سب سے ہمارے طلباء کچھ سیکھے گے۔۔۔
"تھینک یو !
السلام وعلیکم بڈی.. !!
کیسے ہے آپ سب ؟
اُسنے پوچھا جس پر سب ہی طلباء نے ایک آواز میں سلام کا جواب دے کر اپنے ٹھیک ہونے کہا پتہ دیا تھا ۔۔
"الحمدللہ !!
یقیناً آپ سب سوچ رہے ہوگے کہ ہمارا یہاں آنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے ؟
" تو بڈی آپ سب اچھے سے جانتے آج سائنس اتنی ترقّی کر چکی ہے کہ ہم اچھے برے کو بھول چکے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ سائنس ٹھیک نہیں ہے ہر چیز اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے ۔۔
"لیکن یہ دنیاوی زندگی کی استعمال میں آنے والا ایک ایکسپیریمینٹ ہیں ، جہاں یہ اپنی جگہ ٹھیک ہے وہیں یہ اللہ پر سے یقین کھونے کا ایک ذرائع بھی
بن جاتا ہے ۔۔
" جیسے جیسے سائنس نے کی ترقّی
ہم خو بیٹھے یقینِ خدا کو
رہنمائی اُس رب کی بھول گئے
ہر چیز ضروری ہے لیکن ایک دائرے میں کبھی اُس دائرے کو پھلانگنےمت ، ہر چیز ایک معیار میں اچھی لگتی ہے وہ تو سنا ہوگا حد سے زیادہ بیوقوفی بھی نقصان کی ہوتی ہے اور حد سے زیادہ سمجھداری بھی ، انسان کو اتنا سوچنا چاہیے جو آج کو اچھا بنا سکے ،کل کس نے دیکھی ہے ؟
کل کا مت سوچو صرف آج کا سوچو ہاں خواب دیکھتے ہیں اور دیکھنے بھی چاہئے اور یہ بھی پتہ ہے کہ خواب آنے والے کل کو پورا کرنے کے لیے ہی ہم آنکھوں میں بساتے ہے ۔۔
لیکن کل کے بارے میں یہ سوچ کر سوچو کہ آج الحمدللہ اللّٰہ کی رحمت سے پورا ہو گیا انشاءاللہ وہ پاک ذات آنے والے کل کو بھی پورا کرے گا۔۔
مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ سب سائنس کو ہی اپنا خدا مت مان بیٹھنا ، کہ یہ تو بھئی ضرورت پوری کر دیتا ہے آسانی سے پھر اللہ سے کیوں مانگو ؟ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے سائنس صرف ضرورت پوری کرنے کا اللہ نے ایک ذرائع بنایا ہے ورنہ پوری کرنے والا تو اللّٰہ ہے ۔۔
پھر چاہے اللہ سائنس کو ذرائع بنائے انسان کو یا پھر خود ہی بن کر آ جائے یہ اللّٰہ تعالیٰ پر منحصر کرتا ہے۔۔
"بلکل صحیح کہا منہال صاحب شکریہ !! اسٹیج پر کھڑی انونسمنٹ کرنے والی ٹیچر نے اُنکی تقریر کی تائید کرتے کہا تھا۔۔۔
ہمارا یہاں آنے کا مقصد ہی یہی ہے اب کی بار جرّار ہمدانی نے مائک کو چہرے کے آگے کیا تھا ۔۔
چلے آج کُچّھ ہٹ کر باتیں کرتے ہیں ۔۔
کیاآپ سب جانتے ہماری زندگی میں خدا کے بعد کون سی چیز معائنے رکھتے ہیں ؟ اُس نے سب طلباء سے سوال کیا تھی جس کا الگ الگ الفاظوں میں جواب بھی موصول ہوا تھا ۔
"آپ نہیں بتائے گی ؟ جرّار نے خاموش بیٹھی جيرش سے پوچھا اس طرح پوچھنے پر سب کی ہی نظریں جيرش پر جا ٹھہری تھی ۔۔
جبکہ سمعان کی نظروں نے اُسکی اندر کی خاموشی کی گہرائی کو ناپنے کی کوشش کی تھی ۔
وہ اس طرح سوال پر گھبرا گئی تھی اور اُسکی گھبراہٹ کو مائشا نے بہت اچھے سے محسوس کیا تھا ۔۔
وہ اسٹیج سے اُتری اور چلتی ہوئی اُس تک آئی ۔۔
کافی وقت سے اُسکی اس معصوم خوبصورت لڑکی پر نظر تھی سب خوب موز مستی کے رہے تھے جبکہ وہ خاموش بیٹھی سب کو دیکھ رہی تھی کو مائشا نے محسوس کیا تھا۔۔
آخر کو یہ وقت مائشا پر بھی تو گزرا تھا ، جس پر اذیت کا وقت گزرتا ہے وہیں دوسروں کی اذیت کو محسوس کر سکتا ہے ۔۔۔
اُس نے اُس کے برابر میں جگہ بناتے ہوئے اُسکے ٹھنڈے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر دبایا مقصد صرف اسکے اندر ہمت ڈالنا تھا ۔
سب ہی حیران نظروں سے اُن دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔
سمعان نے اُس لڑکی کے اندر سکون اترتا محسوس کیا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اب بہت پرسکون ہے۔۔۔
"بتاؤ گڑیاں !! پھر سے پوچھا گیا اس بار پوچھنے والا ذیشان مجتبٰی تھا ۔۔۔
اسکو اس کے اندر اپنا عقس نظر آیا تھا۔۔۔
پہلی بار اسکو کسی نے اتنی محبّت سے گڑیاں کہہ پکارا تھا۔۔۔
اُسکی آنکھوں میں آنسوں آ گئے تھے جس کو اُس نے اندر دھکیلا تھا۔۔
پھر اُس مائشا کی جانب دیکھا جس پر مائشا نے اسکو بولنے کہ اشارہ کیا تھا اور اُسکی طرف اپنا مائک بڑھایا ۔۔۔
اُس نے مائک کو تھامتے ہوئے سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور گردن کو جھکا کر جواب دیا ۔۔
" ماں باپ !!
یہ بولتے ہوئے اُسکی آنکھوں سے بےشمار آنسوں ٹوٹ کر نیچے زمین بوس ہوئے تھے ۔۔۔
مائشا کی آنکھوں میں بھی آنسوؤں کی لڑیاں بہ چلی تھی جن کو اُس نے بہ نے دیا تھا۔۔۔
بےختیار مائشا کو اپنے بابا یاد آئے تھے ایک زمانہ گزر گیا تھا اس دنیا سے گئے ہوئے انکو لیکن آج بھی وہ نہیں بھولے تھی اپنے بابا کو آج بھی اُنکی یادیں اُسکے دل میں ایسی تھی کہ جیسے ابھی کچھ لمحہ پہلے ہی کی تو بات ہو ۔۔۔
" بلکل !! شی اِز دا رائٹ ....
ہماری زندگی میں ماں باپ وہ انمول رشتہ ہے جو کبھی اپنے بچوں کا بُرا نہیں سوچتا دنیا ساتھ چھوڑ دیتی ہے معاشرہ غلط ٹھہرا دیتا ہے لیکن ماں باپ کبھی غلط نہیں ٹھہراتے۔۔
" پتہ ہے کیوں ؟
"کیونکہ اللہ کے بعد کو سچی محبت کرتے ہیں نہ وہ ماں باپ جیسی انمول ہستی ہے ۔۔
"بعض اوقات ایسا وقت آ جاتا ہے جب ہم پر سے یقین سب کا ٹوٹ جاتا ہے سب ہے ہم کو دھتکار دیتے ہیں لیکن اس وقت ماں باپ ہی ہمارا سہارا بنتے ہیں۔۔۔
بعض اوقات ایک ایسی غلط فہمی کی وجہ سے ہم سے ہمارے سب رشتے ٹوٹ سے جاتے ہیں کوئی بھی یقین نہیں کرتا یہاں تک کہ ہم کو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے خود کے ماں باپ بھی ہم پر یقین نہیں کر رہے ہیں ۔۔۔
ہمارے دماغ میں شیطان اپنے برے وس وسوں کو ڈال دیتا ہے۔۔۔
اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کی بات پر خود ہمارے ماں باپ ہم کو جانے کا یا پھر تھپڑ رسید کر دیتے ہیں۔۔۔ اور ہم سوچتے کہ انھونے بھی ہم سے نفرت کرنی شروع کر دی ہے ۔۔۔
اُسکی اس بات پر جيرش کے کانوں میں اپنی ماں کے بولے گئے الفاظ گونجنے لگے تھے ۔۔
"عامر اس سے کہو کہ یہ میری آنکھوں سے بہت دور چلی جائے ، بولو اس مجھے اسکی شکل بھی نہیں دیکھنی "
وہ تو پانچ دن پیچھے ایک درد ناک واقعی میں خو گئی تھی آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں سے لبا لب آنسوں بہ نے لگے تھے۔۔
جرّار کی آواز پر اُسکا سکتا ٹوٹا اور چونک کر پھر سے وہ حقیقت میں لوٹی تھی۔۔
لیکن ایسی بات نہیں ہے پتہ ہے کیوں ؟ کیونکہ نفرت تو وہ کر ہی نہیں سکتے اور دوسروں کی بات کو سن کر تھپڑ اس لیے مارتے ہے تاکہ اُنکے علاوہ اور کوئی تمہیں چھو بھی نہ سکے !! ایسا نہیں ہے کہ دوسروں کی بات کو وہ سن کر اپنی اولاد پر سے یقین خو دیں اتنی محنت کو وہ دوسروں کی وجہ سے قربان نہیں کر سکتے ۔۔۔
آپ سب سے ایک گذارش ہے آپکے ماما بابا آپکی خوشی کے لیے اپنی ساری زندگی صرف کر دیتے ہیں کہ اُنکے بچے کو کوئی پریشانی نہ ہو تو آپ بھی عقلمندی کا مظاہرہ کرنا کبھی بھی اُنکا دل نہ دکھانا دل دکھانے والے کو اللہ بھی معاف نہیں کرتا ۔۔ اور ماں باپ کی بد دعا عرش تک کو ہلا دیتی ہے پھر کیا ہوتا وہ تو رب ہی جانتا ہے۔۔۔
اُس نے یہ بول کر زیشان مجتبٰی کو اشارہ کیا تھا ۔۔
میں کچھ زیادہ نہیں کہوں گا میں صرف اتنا کہوں گا کہ کبھی برائی کی طرف مت چلنا جو آپکے پاس ہے اُس پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو جو مانگا ہے اللہ سے وہ ابھی تک آپکو نہیں ملا اُسکا انتظار کرو اور جو نہیں ہے وہ یہ سوچ کر چھوڑ دو کہ اللہ نے آپکو اتنا تو دیا ہے اُن کو دیکھو جو دن رات محنت کر کے بھی پورا پیٹ بھر کر روٹی میسر نہیں ہوتی اور وہ پھر بھی اللّٰہ کا شکر ادا کرنا نہیں بھولتے ۔۔۔
ہمیشہ برے کام کا نتیجہ بُرا ہوتا ہے کبھی کسی بھی کام کو کرو تو آخرت کو ضرور یاد کر لینا اور پھر ایک بار صرف ایک بار آنکھیں بند کر کے اللّٰہ کو یاد کر لینا پھر دیکھنا برے کام سے خود بخود تُم دور ہو جاؤ گے جو تمہیں مشکل لگ رہا ہوگا وہ آسان ہو جائے گا اُس نے یہ بول کر مائشا کے جانب دیکھا تھا اور عالیہ نے ذیشان مجتبٰی کی طرف ۔۔۔
ہاں آج بھی مائشا منہال شاہ اُسکے دل میں رہتی تھی جس کی جگہ وہ کسی کو بھی دینا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
ایک اور بات آج میں زیشان مجتبٰی جو کبھی انڈر ورلڈ میں ایک گینگسٹر ہوا کرتا تھا اُسکی بات پر سب آنکھ پھاڑے اسکو دیکھ رہے تھے ۔
آپ سب مجھے حیرت سے میں دیکھے میرا ماضی بہت بھیانک ہے جس سے چھٹکرا الحمدللہ میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری دوست نے دلوایا ہے۔۔۔
"ہاں تو میں کہاں پر تھا ؟
" ہممم یاد آیا آج میں سب کے سامنے اُس نیک دل شخص کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھے برائی کی طرف سے اچھائی اللّٰہ کے جانب متوجہ کیا ہے
"تھینک یو سو مچ !!
آج خود ہی اُس نے ایک حقیقت سے آشنا کیا تھا اور وہ پھر بھی مطمئین تھا کیونکہ اللہ کے راستے پر تھا ان وہ ، ڈرنا کس بات کا ؟ نہ وہ کوئی انڈر ورلڈ گینگسٹر تھا ، نہ کوئی بڑا آدمی ، وہ صرف اللہ کا بندہ تھا اور وہ اُس میں بہت خوش تھا ۔۔۔
"الحمدللہ !!
وہاں بیٹھے سب ہی دم سادھے انکو غور سے سُن رہے تھے۔۔
"السلام وعلیکم میں مائشا منہال شاہ الحمدللہ !! میں یہاں پر موجود ہوں میں آپ سب کو اللہ کے شکر سے دیکھ رہی ہوں آپ سب بہت پیارے لگ رہے ہیں ماشاللہ ، لیکن ایک بات میں جب سے یہاں آئی ہوں کچھ ہی لڑکیوں کو میں نے حجاب میں دیکھا ہے الحمدللہ وہ سب بہت پیاری لگ رہی ہے بلکل الگ سی پیاری سی اور نورانی چہرے والی۔۔۔
"آپ سب کو پتہ ہے اسلام نے عورتوں کا زیور پردہ بنایا ہے اور زیور ہوتا ہے نہ وہ سمبھال کے ایک طرف سجھا کر رکھنے کے لیے نہیں ہوتا وہ پہن کر خوبصورت ہونے کے لیے ہوتا ہے اور ہماری خوبصورتی ہمارا حجاب ہے ۔۔۔
"وہ کہتے ہے نہ
Modesty is half faith and hijab is our adornment
حیا نصف ایمان ہے اور حجاب ہماری زینت ہے۔
"آج کل ہمارے معاشرے میں آئے دن عجیب و غریب نیوز سننے کو ملتی ہے آئے دن میں بیان بھی نہیں کر سکتی ۔۔۔
"پتہ ہے کیوں ؟
"کیونکہ یہ ہماری غلطیوں گناہوں کی وجہ سے ہے جب ہم خود اپنی نمائش کرتے ہے تو دوسروں سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپکی طرف غلط نظر ما اٹھا کر دیکھے۔
"بالوں کو کھول کر آدھی آدھی سلیوز پہنے پتہ نہیں یہ فیشن کی دنیا میں ہم اتنا خو کر رہ گئے ہے کہ حیاء کو بھول گئے ہے ۔۔۔
"ہماری حیاء ہمارا ایمان ہمارا حجاب ہے آپ سب سے درخواست ہے کہ خدا کے واسطے اپنے ایمان کو نہ بھولے اپنی حیاء کو برقرار رکھیں سچ میں اگر آپ لوگ ایک بار پردہ کر کے دکھوں انشاءاللہ کسی کی بھی ہمت نہیں ہوگی آپکی طرف غلیظ نظروں سے دیکھنے کی ۔۔۔
"اور آج کی نوجوان نسلوں سے درخواست ہے کہ یہ اپنی نظروں کی نیچے رکھ کر چلا کرو اگر آپ دوسروں کی ماں بہن بیٹی کی طرف غلط نظروں سے دیکھو گے تو ایک بار دیکھنے سے پہلے اپنے گھر کی بیٹیوں بہنوں کے بارے میں ضرور سوچ لیجئے گا۔۔
"جہاں پردہ عورتوں پر واجب ہے وہیں مردوں پر بھی اللّٰہ نے پردہ واجب کیا ہے بس فرق اتنا ہے کہ عورتوں کو اپنی باڈی کا پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور مردوں کو اپنی نظریں نچی رکھنے کا ۔۔
آئی ہوپ کہ آپ سمجھو گے۔۔
"الله ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دیں آمین !!
سب نے ایک آواز میں آمین کہا تھا۔۔
پھر سے بتہ رہی ہوں کہ
Modesty is half of our faith and hijab is our adornment. It is our duty to maintain this adornment.
حیا ہمارے ایمان کا آدھا حصہ ہے اور حجاب ہماری زینت ہے۔ اس زینت کو برقرار رکھنا ہمارا فرض ہے۔
اُس نے یہ بول کر انوشے کی طرف دیکھا تھا۔۔
______________________________________
عرہا بیگم کی دن بہ دن طبیعت بگڑتی جا رہی تھی ہر وقت خاموش رہتی کسی سے نہ بات کرتی تھی نہ کسی کے پاس اٹھتی بیٹھتی تھی ۔۔
خاندان بھر سے کوئی نہ کوئی اُنکی عیادت کو آتا انکو سمجھاتا اور چلا جاتا اور وہ بس خاموشی بس آنسوں بہتی رہتی ۔۔۔
آج بھی وہ اپنے روم لیٹی دیواروں کو دیکھ رہی تھی آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے ،جن کو اُنہونے بے دردی سے صاف کیے تھے۔۔
"امی امی !! آفیرا آوازیں دیتی دروازہ کھول کر اندر آئی اپنی میں کو سامنے بیڈ پر لیٹے ایسے لیٹے دیکھا تو وہ پریشانی سے اپنی ماما کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
"امی !!!
"کیا ہوا ؟ آپ ایسے کیوں لیٹی ہے ؟ اُس نے اپنی ماما کے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔
اُسکے پوچھنے پر جب کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو اپنی ماما کے کندھوں سے تھام کر اُسنے جھنجھوڑا تھا ۔۔۔۔
"امی ی ی !!! طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی ؟ انکے ماتھے کو چیک کرتے ہوئے اب وہ بہت ہی زیادہ پریشان دکھ رہی تھی۔۔۔
اُسکے یوں جنجھوڑ کر ہلانے پرعرہا بیگم ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی اور سامنے کھڑی آفیرا کو دیکھ کر ایک دم بے اختیار ہوئی اور ایک دم آفیرا کو اپنی ممتا بھری آغوش میں لیا تھا اور بے تحاشہ آنسوں بہائے تھے۔۔۔
"میری بچی نہ جانے کس حال میں ہوگی ؟ ب بیٹا تُو مت جانا اپنی ماں کو چھوڑ کر کبھی بھی م میں مر رہی ہوں آفي دیکھ نہ جيرش کہاں پر ہے ؟ میرا دم گھٹ رہا ہے م مجھے یہاں سے بہت دور لے کر چل یہاں نہیں رہنا ۔۔
عرہا بیگم نے آفیرا کے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا تھا جبکہ اُنکی سانسیں بہت پھول رہی تھی اور آواز اٹک اٹک کر ادا ہو رہی تھی۔۔۔
آفیرا بہت گھبرا گئی تھی اپنی ماما کی یہ حالت دیکھ کر نے اپنی ماما کے کہے گئے الفاظوں کے مطابق سہارا دے کر انکو اٹھایا اور پھر پانی پلا کر اُنکا دوپٹہ درست کرتی ہوئی گھر کے پاس ہی موجودہ پارک میں لے گئی تھی۔۔۔
______________________________________
"بڈی بور تو نہیں ہو رہے نہ آپ سب ؟ اُس نے سب سے پوچھا تھا
سب نے ہی نہ میں گردن ہلا کر منا کیا تھا ۔۔۔
"ویسے آپ سب مجھے جانتے ہی ہوگے .. اگر نہیں جانتے تو میں کروا دیتی ہوں خود کا تعارف آپ سب سے ۔
" میں ہوں انوشے جرّار ہمدانی جو کبھی انوشے شائستہ ہوا کرتی تھی ۔۔
میری زندگی دوستوں کے درمیان گزری ہے میرے دوست میرے خود کے خون کے رشتے تھے ماشاللہ ہر قدم پر میرا ساتھ دینے والے جہاں میری آنکھ سے آنسوں گزرتا وہ سب اپنی زندگی وار دینے کو رہتے اللّٰہ سب کو ایسے دوست عطا کریں آمین ۔۔۔
"چلے میں بھی آپ سب سے کچھ پوچھتی ہوں ،تو
کیا آپ سب بتائے گے ؟اُس نے ایک نظر سب پر ڈالی تھی جس کا جواب توقع کے مطابق ہاں میں ہی ملا تھا ۔۔ ۔
" آپ سب کی زندگی میں دوستی کیا معائنے رکھتی ہیں ؟ سوال کی لڑی میں الفاظوں کے موتی پہناتے ہوئے اُس نے سب کے جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔
پورے ہال میں ایک دم خاموشی چھا گئی تھی۔۔
اس خاموشی کو سمعان احمد کی مغرور آواز نے توڑا تھا۔۔۔
"دوستی !!
"دوستی پانچ لفظوں کی ایک لڑی ہے
د = دل اور دعا سے
و= وعدہ اور وفا سے
س= ساتھ اور سچائی سے
ت= تحفظ اور تسلّی سے
ی= یاد اور یقین سے
" یہ پانچ موتی جب ایک ساتھ ایک مضبوط دھاگے میں ڈالا جاتے ہیں تو دوستی لفظ بنتا ہے اور یہ لفظ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ جب دنیا ساتھ چھوڑ دیں اور ہم ٹوٹ کر بکھرنے کو ہوتے ہیں جب یہ لفظ اپنی طاقت دکھاتا ہے اور سچ میں ٹوٹتے ہوئے کو اس طرح سمیٹتا ہے کہ کبھی پھر بکھرنے نہیں دیتا۔۔
وہ ایک ٹرانس میں بول رہا تھا جبکہ سب اسکو بہت غور سے سُن رہے تھے جيرش نے اس شخص کو اب دیکھا تھا ۔۔۔
کالے رنگ کی شرٹ اور اُس پر جینز پہنے ایک حات میں قیمتی واچ پہن رکھی تھی بھری بھری بیئرڈ اُسکے حسن کو اور نکھار رہی تھی وہ بہت ہی خوبصورت پرسنالٹی رکھتا تھا اور وہ بولتے ہوئے تو ماشاللہ !!
وہ بول رہا تھا۔
"دوست ایک ایسا چور ہوتا ہے
جو آنکھوں سے آنسوں
چہرے سے پریشانی
دل سے مایوسی
اور زندگی سے درد چُرا لیتا ہے
وہ اسکو یوں بولتے ہوئے بہت غور سے کئی لمحہ تک دیکھتی رہی پھر جلد ہی اُس نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ تھا اور اپنی نظریں جھکا لی تھی اور یہ کرتے ہوئے سمعان احمد نے بھی دیکھی تھی۔۔۔
ہلکی سی مسکراہٹ اُسکے چہرے کو چھو کر گزری تھی اور پھر اس نے ایک شاعری پڑھنا شروع کی
"تیری دوستی کی تعریف زبان پہ آنے لگی
تُجھ سے دوستی کر زندگی مسکرانے لگی
یہ میری دوستی تھی یا تیری اچھائی
کہ میری ہے سانس سے تیرے لیے دعا آنے لگی،،
یہ شاعری میری اُس جانِ عزیز دوست کے نام ہے جس نے ہے قدم پر میرا ساتھ دیا ۔۔۔
یہ بول کر وہ اسٹیج سے اُتر گیا تھا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا جبکہ وہ چلتا ہوا شایان اور محسین کے برابر میں کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔
"واہ یار کمال کر دیا ۔۔ محسین نے اُسکی پیٹھ پر سراہتے ہوئے شاباشی دی تھی جبکہ شایان اُسکے اس انداز پر خوب دل کھول کر مسکرایا تھا۔۔۔
"بسس تُم لوگوں کا ہی کمال ہے ورنہ میری کیا اتنی احصیت وہ اُن دونوں کو دیکھتے بولا تھا سنجیدگی ہونز برقرار تھی۔۔۔
"ہاہاہاہا ہہہہہہہہہہہہ !!
" شایان دیکھ اسکو یہ کمین ذلیل انسان دیکھ کیا بول رہا ہے ۔۔۔
"یہ احسيت کی بات کرتا ہے ایک گھوری سے ہم معصوم کونے میں لگ جاتے ہیں اور یہ ہے کہ اسکی کوئی احسیت نام کی یہ شے ختم ہی نہیں ہو کر دیتی وہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئی شایان سے بولا اور اُسکی اس بات اور سمعان نے اسکو گھوری سے نوازہ ۔۔۔۔
"ہاہاہاہا ہہہہہہ !!!
"چل یار رہنے دیں کیوں میری بعزتی کر رہا ہے ایسے سب کے سامنے یوں گھورنے پر میری کیا عزت رہ جائے گی جو اتنی سے بچی کچی ناک ہے وہ بھی کٹوانے کا ارادہ رکھتا ہے کیا ؟
اُسکی فر فر چلتی زبان کو بریک تو جب لگی تھی جب سمعان نے اُسکی کمر پر ایک مکّا رسید کیا تھا۔۔۔
آں ں ں !!! بے رحم انسان اللّٰہ پوچھے گا تُجھے وہ اپنی پیٹھ کو مسلتے ہوا بولا تھا۔۔۔
دور کھڑے منہال نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بے اختیار اسکو اپنا اور صرفان کے ہونے والے واقعہ یاد آئے تھے ۔۔
اور وہ تینوں کو دیکھتے مسکرا دیا تھا ۔۔۔
واقعی دوستی جیتنا خوبصورت رشتہ کوئی نہیں ہوتا چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو لیکن اپنی خوشبو ہر طرف پھیلا دیتا ہے۔۔۔۔
exactly !! human is not alone in the presence of a friend
"بالکل !! دوست کی موجودگی میں انسان تنہا نہیں ہوتا۔
انوشے نے سمعان کو سراہتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ ایک بار پھر پورا انڈیٹریوم تالیوں سے گونج اٹھا تھا ۔۔
______________________________________
وہ حیدراباد آ چکا تھا اپنی دوست کی مدد سے پہلے ہی اُس نے ایک ہوسٹل میں روم لے لیا تھا ۔۔۔
وہ روم میں آتا اپنا سامان ایک طرف رکھ کر وہیں سر تھام کر بیٹھ گیا ۔۔۔
درد سے سے پھٹنے کو تھا آنکھیں لال سُرخ ہو گئی تھی جبکہ باڈی بہت ہی کمزور نظر آ رہی تھی ۔۔۔
وہ یہاں سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی بہن کی حفاظت کرنے کے لیے آیا تھا وہ بہن جو اسکو ہر رشتے میں سب سے عزیز تھی ۔۔۔
تبھی اُسکا موبائل وائبریٹ ہوا اُسنے ایک طرف رکھے موبائل کی طرف دیکھا جہاں الہام کالنگ لکھا نظر آ رہا تھا۔۔۔
اُس نے جلدی سے کال اٹھا لی اور کان سے لگاتا ہوا بولا تھا۔۔۔
"السلام وعلیکم یار ...
دوسری جانب سلام کا جواب دیا گیا تھا
الہام : وعلیکم السلام
عامر: "کیسا ہے تُو ؟
الہام : الحمدللہ میں ٹھیک !! " تُو کہاں ہے ؟
عامر: ہاں یار میں حیدرآباد میں ہوں ، وہ اکتائے لحظے میں بول رہا تھا ۔۔
عامر: "کچھ پتہ چلا ؟ اُس نے پوچھا ۔۔۔
الہام : نہیں یار ابھی کُچّھ نہیں پتہ چلا خیر یہ بتہ کل سے یونیورسٹی چل رہا ہے نہ ؟
عامر : ہمم جاؤں گا اپنی سٹڈی کا حرج نہیں کرنا یار ۔۔۔۔ اُسنے کہا تھا
الہام : ٹھیک ہے پھر میں کل صبح تُجھے پک کر لوں گا ۔۔
اوکے یہ بول کر عامر نے کال کاٹ دی تھی اور ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا
ایک وعدہ وہ کر چکا تھا خود سے جو غلط ہو رہا ہے اسکو وہ ٹھیک کر کے رہے گا وہ کچھ غلط نہیں ہونے دے گا ۔۔۔۔
______________________________________
"تعارف بہت چھوٹا سا ہے لیکن زندگی کے لیے سب سے منفرد اور میری زندگی ہے ۔۔
مجھے عالیہ زیشان مجتبٰی کہتے ہے میں نہ کوئی تحریر سناؤں گی نہ کوئی تقریر دوں گی میں صرف ایک پوئٹری بولوں گی
"پھر ذہن میں ہریالی ہوگی ،
جب مایوسی کا اندھیرا غروب ہوگا ،
جب اداسی کی شام غروب ہوگی ،
جب امید کی روشنی اندھیرے کی روشنی سے چمکے گی ،
تب ذہن میں ہریالی ہوگی ،
جب مصیبتوں میں بھی آپ مسکرائیں گے اور میلے کا گانا گائیں گے ،
جب غموں پر خوشی کی بحالی ہوگی ،
تب ذہن میں ہریالی ہوگی وقت کسی کے رکنے سے بھی نہیں رکتا ، رکنا نہیں ،
آپ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بھی چلتے رہتے ہیں ،
جب آپ مصیبتوں کے سمندر میں غوطہ لگائیں گے ،
تب زندگی کی رونق منفرد ہوگی ،
پھر وہاں ہریالی ہوگی آپ کے دماغ ذہن کے لیے فتوحات ہیں ،
ذہن کی شکستیں ہیں ،
زندگی میں صرف امیدوں کی مدد سے سجاوٹ ہوگی ،
جب ذہن جوش و خروش سے بھرپور ہوگا اور جسم بیماریوں سے پاک ہوگا ،
تب ہریالی ہوگی
جب آپکو اپنوں کے درمیان خوشی ملے گی
تب ہریالی ہوگی
جب آپکو کوئی ایسا ملے گا جو زندگی کو حسین بنا دے گا
تب ہریالی ہوگی
پھر کوئی چاہ آپکی باقی نہیں رہے گی
زندگی میں صرف ہریالی ہریالی ہی ہوگی
از خود
"میں جانتی ہوں زندگی میں دوسروں کو یہ بول دینا کہ تحمّل سے کام لو یہ کام ہو جائے وہ ہو جائے گا ایسا دوسروں کو بول دینا آسان ہوتا ہے ، دوسروں کو اپنی تقریر سنا دینا بھی آسان ہوتا ہے
لیکن تحمّل کرنا بھی تو آسان نہیں ہوتا ، ہم اُس شخص کی اذیت کو نہیں جانتے اُس اور بیتے ہوئے درد کو محسوس نہیں کر سکتے تو کیسے ہم تحمّل کرنے کا بول دیتے ہیں اور ویسے بھی کسی کے ایسا بولنے صبر نہیں آتا اور بھی زخم تازہ ہوتے
تحمّل تو اللہ عطا کرتا ہے انسان کو خود بخود صبر آ جاتا ہے۔۔۔
پر پھر بھی ہم اُس شخص کو اپنے الفاظوں سے حوصلا دے سکتے ہیں اسکو جینے کی ایک اُمّید دیکھا سکتے ہے اُسکی اذیت کو ختم تو نہیں کر سکتے لیکن کم ضرور کر سکتے ہیں اور اس پویٹری میں ایسا ہی بولا ہے میں نے ۔۔۔۔
اُمید کرتی ہوں آپ سب کو ہمارے سب کے الفاظوں سے کچھ نیا ہی جاننے کو ملا ہوگا اور پسند بھی آیا ہوگا ۔۔۔۔
اللہ سے ہم سب کی دعا ہے کہ آپ سب اپنے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے آمین !!!
"آل دا بیسٹ بڈی ..
یہ بول کر وہ سب اسٹیج سے اُتر گئے تھے ۔۔
سب نے پارٹی خوب انجوئے کی تھی یہ دن سب کی زندگی کا ایک خوبصورت دن بن کر یادوں میں بس گیا تھا نہ بھولنے والی یادیں بن گیا تھا۔۔۔۔
وہ سب جا چکے تھے زندگی کی ایک نئی صبح سب کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔
______________________________________
So guy's jldi se jaye epi 5 read kro ...
Do Vote share n ur reviews
Comment box mein jroor btana aaj ka epi kaisa lga. .
Mujhe intezaar rahe ga aapke reviews ka..